27 ستمبر 2007
جوڈیا پرل:
پچھلی دو دہائیوں کے دوران غیرمعمولی تعداد میں سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ نفرت پالنے لگے ہیں۔ ہم کروڑوں، شاید اربوں افراد کی بات کررہے ہیں۔ اور ہم نے اب تک اس آتش فشاں غصے کو پھٹتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ اور ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا پڑتا ہے: اس دھماکے کا، اس بڑھتی ہوئی نفرت کا مقابلہ کون کررہا ہے؟ اور میں اپنے آپ کو اکیلے جنگ لڑتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ میرا واحد ہتھیار میرے بیٹے ڈینیل پرل کی میراث ہے۔
ڈینیل گرین:
2002 میں ڈینیل پرل کو پاکستان میں بنیاد پرست انتہا پسندوں نے اغوا کرکے قتل کردیا۔ انٹرنیٹ پر اس قتل کی ویڈیو لگائی گئی اور دنیا بھر میں دیکھی گئی۔ اسی سال ڈینیل کے والدین جوڈیا اور روتھ پرل نے اپنے بیٹے کی زندگی اور کام کے مرکزی اصول، کثیر جہتی، بین الثقافتی افہام و تفہیم اور احترام کے فروغ کے لئے ڈینیل پرل فاؤنڈیشن قائم کیا۔ جوڈیا پرل امید کرتے ہیں کہ اس فاؤنڈیشن کے صدر کی حیثیت سے ان کی کوششیں نفرت کی کوکھ سے جنم لینے والے تشدد کا مقابلہ کرنے کے مواقع فراہم کریں گی۔
سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز ہے۔ میں ڈینیل گرین ہوں۔ ہر دوسرے ہفتے ہم ایک مہمان کو دعوت دیتے ہیں جو اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ سام دشمنی اورنفرت کس طرح ہماری دنیا کو متاثر کرتے ہيں۔ آئیے، ڈینیل پرل فاؤنڈیشن کے صدر پروفیسر جوڈیا پرل سے بات کرتے ہیں۔
جوڈیا پرل:
میرے بیٹے کے قتل میں آپ کو اکیسویں صدی کا انسان دکھائی دے گا۔ جب ڈینی کو اغوا کیا گیا، ہمیں شروع میں جو ای میل موصول ہوئيں، ان کا تعلق اس کے امریکی ہونے سے تھا، اس کے بعد یہودی مذہب کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے قتل کے سین میں آپ کو اسرائیل مخالف اور سیہون مخالف منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ انہوں نے صرف انہی شعبوں کے بارے میں بات ہے جو ان کے خیال میں ان کے منصوبے کے لئے جواز بنتے تھے۔
ظاہر ہے ڈینی کے ساتھ جو ہوا، اس کا موازنہ ہولوکاسٹ سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے پیمانے میں بہت فرق ہے۔ لیکن یہ نہ بھولیں کہ نازیوں نے بھی شرم یا ڈر کی وجہ سے اپنی کرتوت چھپانے کی کوشش کی تھی۔ اور یہاں چند لوگ ایسے ہیں جو اپنی کرتوتوں پر فخر کرتے ہیں، جنہیں ایک نہتے صحافی کو مار کر فخر محسوس ہوتا ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ ان کے دیکھنے والے ان کی حمایت کریں گے۔ اور پھر ان کی طرف دیکھنے والے ان کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ ہم ایک ایسا رجحان دیکھ رہے ہیں جس کی مثال پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ہماری تاریخ میں اس طرح کی نفرت کبھی دیکھی نہیں گئی۔
مسلمان یہودیوں سے اس لئے ناراض ہیں کیونکہ وہ ایک ایسی ریاست کی حمایت کرتے ہیں جو ان کی نظر میں یورپی سامراج کی ایک چوکی ہے۔ اور یہودیوں کی مسلمانوں سے ناراضگی کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اسرائیل کو یہودیوں کی گھر واپسی کے پس منظر میں نہیں دیکھتے بلکہ اسے مشرق وسطی میں ایک خارجہ ادارہ سمجھتے ہیں۔ اور یہ بہت ضروری ہے کہ دونوں اطراف ایک دوسرے کو سمجھیں، ایک دوسرے کی کہانی سنیں اور اس سے اپنی واقفیت بڑھائیں۔
ہم نے اس لئے ڈینیل پرل مسلمان یہودی تفہیم کا مکالمہ شروع کیا اور ہم ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جا کر ایک خالی اسٹیج پر کھڑے ہو کر مختلف اقسام کے افراد پر مشتمل سامعین سے بات کرتے ہیں۔ ہمارے دو ہی قواعد ہیں۔ پہلا یہ کہ کوئی بھی مسئلہ شجر ممنوعہ نہیں ہے، بلکہ پہلے متنازعہ مسئلے پر بات کی جائے گی۔ دوسرا یہ ہے کہ تمام اوقات پر دوسروں کا احترام کیا جائے گا۔ ہم متنازعہ مسائل پر بات کرتے ہیں اور سامعین کویہ دیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ ان مسائل پر احترام اور دوسروں کو سمجھنے کے لئے رضامندی کے ساتھ بحث ہوتی ہے۔
آپ نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ہم نفرت کے سونامی کا مقابلہ کس طرح کررہے ہیں، ہمارے منصوبوں میں سے ایک ڈینیل پرل ورلڈ میزک دیز ہے جس میں ہم اس کی سالگرہ کے ہفتے میں سینکڑوں کانسرٹ منعقد کرتے ہیں، جن میں ہزاروں موسیقار دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، اور سمجھداری اور انسانیت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور یہ خیرسگالی کا پیغام لانے والے افراد کے لئے یکجا ہونے اور انہیں بتانے کے لئے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں، ایک بہترین موقع ہے۔ دنیا بھر میں اس ہفتے کے دوران انسانیت اور برداشت کے لئے موسیقی پیش کی جاتی ہے۔ یہ ایک بہت طاقت ور منصوبہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ سننے والے اس میں حصہ لے سکیں گے۔
آپ جو خاموش سی موسیقی چلارہے ہیں، یہ پس پردہ موسیقی، اسے بند کریں، اور ایسا کچھ سنیں جو سننے والوں کو ہلا کر رکھ دے اور انہیں ہتھیار اٹھانے پر اکسائے۔ جی، ہتھیار اٹھانے پر۔ اس طرح کی کچھ چیز سنیں: (گنگناتے ہوئے)۔ اس طرح کی کوئی چیز۔ فاتح، صحیح، ٹھیک ہے، بہت خوب۔