5 جولائی 2012
مہناز آفریدی:
میرے خیال میں لوگوں کے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ ایسے مسلمان اور یہودی بھی موجود ہیں جنہیں واقعی دوسروں کے عقیدوں یا ثقافتوں میں دلچسپی ہے اور جو ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھتے ہیں۔
الیسا فشمین:
مہناز آفریدی دوسرے مذاہب اور ثقافتوں میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ مہناز آفریدی کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی اور وہ اسلامی تعلیمات پر عمل بھی کرتی ہیں۔ انہوں نے یہودی مذہب اور یہودی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، ہولوکاسٹ سے بچنے والوں کا انٹرویو کیا ہے، اور وہ احترام و دعا کے لئے ڈاخو بھی جاچکی ہیں۔ اب وہ مین ہیٹن کالج میں مطالعہ مذہب کی اسسٹنٹ پرافیسر اور ہولوکاسٹ، جینوسائیڈ اینڈ انٹر فیتھ سینٹر کی ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں، اور اپنے طلباء میں دوسرے مذاہب اور ثقافتوں میں دلچسپی لینے کا جذبہ ابھارنے کے سلسلے میں کام کررہی ہیں۔
سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز ہے جو اولیور اور الیزبیتھ اسٹینٹن فاؤنڈیشن کے بھرپور تعاون کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ میں الیسا فشمین ہوں۔ ہر مہینے ہم ایک مہمان کو دعوت دیتے ہیں جو اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ سام دشمنی اورنفرت کس طرح ہماری دنیا کو متاثر کرتے ہيں۔ ریورڈیل، نیو یارک میں واقع مین ہیٹن کالج کے کیمپس سے مہناز آفریدی بات کریں گی۔
مہناز آفریدی:
میں نے مین ہیٹن کالج میں ایک اشتہار دیکھا اور مجھے لگا کہ اس سے بہتر کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ انہیں اسلام کے متعلق پڑھانے کے لئے کوئی چاہئیے تھا جسے ہولوکاسٹ کے متعلق بھی معلوم ہو اور جس کے پاس غیرمنافع بخش ادارے میں کام کرنے کا تجربہ بھی ہو۔ میرے پاس یہ سب تھا۔ میں نے درخواست دی اور مجھے نوکری مل گئی۔ مجھے لگا جیسے یہ میرے لئے ہی بنائی گئی تھی۔ لیکن مجھے ملازمت آسانی سے نہیں ملی۔ یہ تنازعوں سے خالی نہیں تھا۔ یہ یہودیوں کے لئے بہت مشکل تھا کیونکہ ہماری کمیونٹیوں کو ایک دوسرے پر اعتبار نہیں ہے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ کس چیز نے پریشان کیا تھا۔ اور میں نے یہ بتایا کہ میں نے ایک بار ایک بلاگ پڑھا تھا جس میں لکھا تھا کہ یہ ایک نیو نازی کو ملازمت پر رکھنے کے برابر ہی ہے اور مجھے لگا جیسے میرا دل ہی ٹوٹ گیا ہو۔ مجھے لگا، اُف خدایا۔ آپ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمانوں اور نیو نازیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے۔ اور میرے لئے یہ اور بھی زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ مجھے اس نظریے کو بدلنا ہوگا۔
میں یہودی نہ سہی لیکن مجھے مسائل کے متعلق اچھی طرح سے علم تو ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہولوکاسٹ کی سمجھ بوجھ کے ذریعے مکالمے کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اور یہ مکالمہ، ان بین المذاہب مکالمے سے زیادہ اہم ہوگا جس میں ہم صرف ایک ساتھ بیٹھ کر اپنی مشترکہ باتوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، بلکہ ہم اس میں ان تفریق اور تکالیف کے بارے میں بھی بات کریں گے جو یہودیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی ستاتے رہے ہیں۔
میں جب بھی امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں اور اسلام فوبیا کے بارے میں بات کرتی ہوں، میں اسے علیحدہ رکھ کر بات نہیں کرسکتی۔ میں سام دشمنی کے بارے میں بات کرتی ہوں اور اس بارے میں بات کرتی ہوں کہ امریکہ میں سام دشمنی اسلام فوبیا سے بڑا مسئلہ ہے۔ لوگ حیران ہوجاتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے۔ میرے مسلمان طلباء کے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ اگر آسان زبان میں کہوں تو میں نے جن طلباء کو ہولوکاسٹ کے بارے میں پڑھایا ہے، انہیں اس وقت احساس ہوا جب انہیں معلوم ہوا کہ چھ ملین یہودی متاثر ہوئے تھے۔ انہیں بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ یہودی مراکش جیسی جگہ میں کیمپوں میں رہتے تھے اور انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ جہاں تک نازی اور وکی حکومت کی پہنچ بھی، وہاں سے یہودیوں کو زمین کے ہر کونے سے اٹھایا گیا۔ میرے خیال سے ہر کسی کو اس بات کا احساس ہوجانا چاہئیے۔ میں نہیں جانتی کہ ایسا کیوں نہیں ہے۔ لیکن جب طلباء سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کیا کیا ہوا تھا یا جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ موت کے کیمپوں میں کیا ہوا تھا تو مسلمان طلباء کو نہ صرف ہمدری کا احساس ہوتا ہے بلکہ وہ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا تھا؟ کسی نے انہیں روکا کیوں نہیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک یہودی طالب علم یہی سوال پوچھے گا۔
میرے خیال میں نوجوانوں میں یہ صلاحیت ہے کہ اگر انہیں خود سے ہٹ کر کسی کی صورت حال کا احساس ہو تو وہ کسی مختلف طریقے سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنا ایمان کھو بیٹھے ہیں یا آپ اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی مختلف اور منفرد طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں، جس میں آپ دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کی حساسیت کو سمجھتے ہیں۔
یہ بہت احمقانہ بات لگتی ہے لیکن لوگوں کو اب بھی یہی لگتا ہے کہ ہولوکاسٹ کو ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے۔ ایسا صرف مسلمان کمیونٹی میں نہیں ہے۔ ایسے لوگ غیر مسلم کمیونٹی میں بھی نظر آتے ہیں جو اس کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ اور میں نے سوچا کہ میں خود جا کر ہولوکاسٹ سے بچنے والوں کا انٹرویو کروں۔ میںمیزیم آف ٹالرینس پہنچ گئی اور انہوں نے مجھے اس سے متعارف کروایا اور میں نے لاس اینجلس میں رہنے والے پانچ یہودیوں کا انٹرویو بھی کیا۔ لیکن ان انٹرویو کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ اُنہوں نے برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے اپنا انٹرویو لینے دیا۔ وہ مجھ سے پوچھنا چاہتے تھے۔ آپ ایسا کیوں کررہی ہیں؟ آپ تو مسلمان ہیں۔ اور وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آپ مسلمان کیسے ہوسکتی ہیں؟ ایسا کرنے پر آپ سے ذیادتی نہیں کی جائے گی؟ دلچسپ بات یہ تھی کہ ہم نے مکالمہ شروع کر دیا۔ وہ اگرچہ ہولوکاسٹ سے بچ گئے تھے اور مجھ سے عمر میں کافی بڑے تھے اور ان کا تعلق ایک مختلف نسل اور یورپ کے مختلف علاقوں سے تھا، ہم نے ایک دوسرے کو بہت مختلف طریقوں سے انسانوں کے روپ میں دیکھنا شروع کیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے کسی کو گلے لگایا اور اس نے مجھ سے کہا، میں نہیں جانتی تھی کہ مسلمان عورتیں دوسروں کو گلے بھی لگاتی ہیں۔ اور میں نے اس سے کہا کہ ہم اتنے سنگ دل اور الگ تھلگ نہیں ہیں جتنا آپ سمجھ رہے تھے۔ اور ایک لمحہ ایسا آیا جب ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر صرف ہاں کہا۔ اور ہم دونوں کو اس بات کا بھی احساس ہوا کہ ہم نے اسٹیریوٹائپ کو ایسے طریقے سے ختم کیا کہ ہمیں اس کی توقع بھی نہیں تھی۔ مجھے بالکل بھی یہ توقع نہ تھی۔ اور وہ بھی تھوڑا پریشان ہوا۔ اور ہمیں سکون ملا۔ بہت سکون ملا۔
یہودی اور عیسیائی مذاہب کی طرح اسلامی اصولوں کے مطابق اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میری دوسرے لوگوں اور انسانیت کی طرف اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ میں کبھی بھی جھوٹی گواہی نہ دوں۔ اور یہ بات تورات اور انجیل میں بھی بیان کی گئی ہے۔ اس لئے میں مسلمان کمیونٹیوں میں سام دشمنی کو برداشت نہیں کرسکتی ہوں۔ ایسے کئی افراد ہیں جنہوں نے میرے سامنے سام دشمنی کا اظہار کیا ہے اور جنہیں میں اب کبھی بھی کھانے پر نہیں بلاتی ہوں۔ ان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر غیریہودی بھی شامل ہے۔ میں بالکل بھی برداشت نہیں کرسکتی ہوں، اسی طرح جیسے میں اسلام دشمنی یا مسلمانوں کی مخالفت برداشت نہیں کرسکتی۔ میں نے جو قرآن میں سیکھا ہے، مجھے اپنی زندگی میں اُس پر عملدرآمد کرنا ہے۔ دن میں پانچ بار نماز پڑھنا، روزے رکھنا، حج پر جانا، یا خیرات دینا، یہ سب مسلمان بننے کے لئے کافی نہیں ہے۔ آپ کو کمیونٹی اور سوسائیٹی میں اپنا کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔
یہ بہت دلچسپ بات ہے۔ جب آپ کسی اور کے مذہب کا مطالعہ کرتے ہیں، آپ اس کے ساتھ سنجیدہ ہیں، لیکن آپ اپنی روایتوں پر لوٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اسلام یہودیوں کے حوالے سے کافی مثبت ہے۔ اور میں اسلامی اصولوں کے ذریعے اس سامی دشمنی، ہولوکاسٹ یا ہولوکاسٹ سے انکار کے بارے میں منفی رائے کے متعلق مسلمانوں کی کمیونٹیوں سے بات کرنا چاہتی ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ امن قائم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اگر ہم ایک دوسری کی تاریخ اور حقیقت کو سمجھیں تو امید کی کرن زیادہ روشن ہوتی ہے۔