4 اپریل 2013
پردیپ کالیکا:
میرا نام پردیپ کالیکا ہے۔ میں ستونت سنگھ کالیکا کا سب سے بڑا بیٹا ہوں۔ میرے والد کو 5 اگست 2012 کو وسکانسن کے سکھ مندر میں نسل پرست سفید فام افراد کے ہاتھوں قتل کردیا گيا تھا۔
ایلیسا فش مین:
اپنے والد کے قتل کے بعد پردیم کالیکا نفرت کی بنیاد پر جرائم اور تشدد کے خلاف ایک زوردار آواز بن چکے ہیں۔ کالیکا ایک پولیس افسر رہ چکے ہيں اور اب شہر ملواکی میں ہائی اسکول کے استاد ہیں اور انہوں نے سرو 2 یونائیٹ قائم کرنے میں بھی کردار ادا کیا ہے جس کے ذریعے مختلف مذہبی اور ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوان جمع ہوتے ہيں۔
سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائيٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کی جانب سے جاری ہونے والی ایک پوڈکاسٹ سیریز ہے، جو ایلزبتھ ایںڈ اولیور اسٹینٹن فاؤنڈیش کے تعاون کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ میرا نام ایلیسا فش مین ہے۔ ہر مہینے، ہم اپنی دنیا میں سام دشمنی اور نفرت کے اثرات پر غور کرنے کے لئے مہمان مدعو کرتے ہيں۔ مل واکی وسکانسن سے آج ہمارے ساتھ پردیپ کالیکا موجود ہيں۔
پردیپ کالیکا:
میرے سارے گھر والے 1982 میں بھارت سے ہجرت کرکے وسکانسن آ گئے۔ ہجرت کی وہی کہانی تھی، آپ کے پاس جیب میں 35 ڈالر تھے اور آپ محنت کرتے ہیں، اور آخرکار آپ کی زندگی بن جاتی ہے۔ ملواکی میں ایک سکھ کی حیثیت سے بڑے ہوتے ہوئے ہمیں یہ احساس ہوتا تھا کہ ہم مختلف ہيں۔ مجھے ہمیشہ معلوم تھا کہ میرے والدین دوسرے والدین سے مختلف لباس پہنتے ہيں۔ سچ بتاؤں تو کبھی مجھے اپنی والدہ کے روایتی لباس یا اپنے والد کی پگڑی پہننے پر شرم بھی آتی تھی۔ اور کبھی میں اس بارے میں سوچنا بھی نہيں چاہتا تھا۔ میں اپنی جلد کے رنگ کے بارے میں بھی نہيں سوچنا چاہتا تھا۔ لیکن اب میں 36 سال کا ہوگيا ہوں، میں ان فرقوں کی قدر کرتا ہوں، اور میں دونوں جہاںوں کی بہترین چیزوں کی قدر کرتا ہوں۔
5 اگست کو میں مندر کی طرف جارہا تھا۔ میں اپنے بچوں کو سنڈے اسکول چھوڑنے جارہا تھا۔ انٹرسیکشن پر مجھے ایک پولیس کی گاڑی نے روکا، اور بتایا کہ مندر میں گولیاں چلائی گئی ہیں۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ میرے والد مندر میں تھے اور انہيں گولی لگی ہے، اور میری والدہ اس وقت کچن میں کام کرنے والی دوسری خواتین کے ساتھ الماری میں چھپی ہوئی تھیں۔ چھ لوگوں کو مارا گیا تھا۔ تین اور لوگوں کو گولیاں لگی تھیں۔ ان میں سے ایک کی حالت تشویشناک تھی، اور وہ اب بھی تڑپ رہا تھا۔ چھ لوگ مارے گئے، لیکن اگر گولیاں چلنے سے پہلے باہر کھڑے دو نوجوانوں نے ہمیں بتایا نہ ہوتا تو شاید اور بھی جانیں ضائع ہوتیں۔ انہوں نے اندر بھاگ کر لوگوں کو بتایا، اور لوگوں کو چھپنے کا موقع مل گيا۔
ان دونوں بچوں نے مجھے بتایا کہ جب گولیاں برس رہی تھیں، انہوں نے میرے والد کو زمین پر لیٹے دیکھا، اور انہوں نے بتایا کہ وہ دعا مانگ رہے تھے۔ وہ سکھوں کی دعا مانگ رہے تھے "واہے گرو، واہے گرو، واہے گرو"، جس میں استاد، یا گرو، کو پکارا جاتا ہے۔ میرے اور میرے والدین کے تعلقات بہت اچھے تو نہيں تھے، لیکن اس وقت مجھے ان پر بہت فخر تھا، کیونکہ وہ اپنے لئے دعا نہيں مانگ رہے تھے۔ جب وہ "واہے گرو" کہہ رہے تھے، وہ پوری دنیا کے لئے دعا مانگ رہے تھے۔ اور اس بات نے مجھے اس کام کو آگے بڑھانے کی ترغیب دی، تاکہ لوگ اس بات سے آگاہ ہوسکیں کہ یہ مسائل موجود ہيں۔
سکھوں کو امریکہ میں کس قسم کے تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے – میرے خیال میں اس کو دو دوروں میں دیکھنا پڑے گا۔ 11/9 سے پہلے یہ محض تجسس تھا۔ "تم لوگ کس طرح کرتے ہو؟ کس طرح کا کھانا کھاتے ہوں؟ میں جاننا چاہتا ہوں کہ تم کس طرح کے لوگ ہو۔" لیکن11/9 کے بعد یہ ایک معمے کی شکل اپنانے لگا، اور سچ بتاؤں تو یہ بہت منفی ہونے لگا۔ 5 اگست کے بعد ہی سکھوں کے بارے میں آگاہی سامنے آنے لگی۔ لیکن میرا بنیادی مقصد سکھوں اور مسلمانوں میں فرق کرنا نہيں ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ حملہ محض نفرت اور جہالت کی بنیاد پر ہوا ہے۔ ذاتی طور پر یہ میرے لئے ایک سانحہ تھا۔ ذاتی طور پر یہ بہت لوگوں کے لئے سانحہ تھا جو اس صورت حال سے قریب تھے، لیکن میرے خیال میں وہ سکھوں، مسلمانوں، سیاہ فام، یہودیوں، بلکہ ہر کسی کو نشانہ بنا رہا تھا۔ میرے خیال میں اس نے "دوسرے شخص" کو نشانہ بنایا تھا۔
اور ایک طرح ہماری آنکھیں کھل گئيں، اور ہمیں لگا کہ شاید امریکی ایک دوسرے کو اس قدر بہتر انداز میں نہيں جانتے جتنا ہم سمجھتے تھے۔ اور ہمیں ایسا کرنا چاہئیے: ہمیں فرقوں کو کم کرنا چاہئیے، اور مشترکہ باتوں کو اجاگر کرنا چاہئیے۔