یکم مئی 2014
راہب لارڈ جاناتھن سیکس:
یہودیوں یا کسی کے بھی خلاف نفرت ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں خود کے ساتھ فریب اور ایسے کئی حقائق کو دفن کرنا شامل ہے جو آپ جانتے ہیں کہ سچ ہیں۔
الیسا فشمین:
راہب لارڈ جاناتھن سیکس 22 سال تک برطانیہ اور دولت مشترکہ کے راہبِ اعلیٰ رہ چکے ہيں۔ سیکس امریکہ اور برطانیہ کی کئی یونیورسٹیوں میں وزٹنگ پروفیسر ہيں اور وقت کے ساتھ ساتھ سام دشمنی میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں۔
سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز ہے جو اولیور اور الیزبیتھ اسٹینٹن فاؤنڈیشن کی بھرپور حمایت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ میں الیسا فشمین ہوں۔ ہر مہینے ہم ایک مہمان کو دعوت دیتے ہیں جو اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ سام دشمنی اورنفرت کس طرح ہماری دنیا کو متاثر کرتے ہيں۔ راہب لارڈ جاناتھن سیکس اپنے لندن میں واقع گھر سے بات کر رہے ہیں۔
راہب لارڈ جاناتھن سیکس:
کسی بھی گروہ سے نفرت کا عوامی جواز پیش کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک ایسا مخصوص گروہ جس میں ایسے افراد شامل ہیں جو اُن تمام الزامات کے حوالے سے بالکل بے گناہ ہیں جو کوئی اُن پر لگا سکتا ہے۔ اور تاریخی اعتبار سے سام دشمنی کو ہمیشہ اخلاقی اقدار کے بارے میں فیصلے کا اختیار رکھنے والوں سے خود کو منوانا پڑتا رہا ہے۔ قرون وسطی میں اس کا واحد ذریعہ مذہب تھا۔ لہذا قرون وسطی میں سام دشمنی کا مطلب یہودیوں کی مخالفت تھا اور یورپ میں اس کی بنیادی شکل یہی تھی۔
انیسویں صدی میں جب کہ یورپ میں سائنس، روشن خیالی اور منطق عام ہونے لگی، مذہب کی اہمیت ختم ہونے لگی اور سائنس کو اتھارٹی مانا جانے لگا۔ سائنس کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ سائنسی طریقہ کار سے قائم کردہ حقائق پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ لہذا انیسویں صدی میں سام دشمنی کے جواز کے لئے دو شعبے استعمال کئے گئے جن کا شمار اس وقت سائنس میں کیا جاتا تھا۔ لیکن آج کل ہم ان کا شمار جعلی سائنس میں کرتے ہيں۔ ایک نسل کا سائنسی مطالعہ تھا جس کے مطابق انسانیت کو مختلف نسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر نسل کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ان میں سے کچھ مہذب نسلیں ہیں اور کچھ قدیم نسلیں ہیں۔ دوسرا اصول تھا جس کو سماجی ڈاروینزم کا نام دیا گیا تھا جس کے ماننے والے برطانیہ اور امریکہ میں تھے۔ لیکن جرمنی میں بھی کئی لوگ اس کے بارے میں کافی سنجیدہ تھے۔ سماجی ڈاروینزم کے مطابق انسان کی تاریخ میں بھی حیاتیات کے بنیادی اصول کا اطلاق ہوتا ہے جس کے تحت طاقتور نسلیں کمزور نسلوں کو ختم کرکے باقی رہتی ہیں۔ لہذا 1879 میں ولہیم مار نامی جرمن صحافی نے "سام دشمنی" کا ایک نیا مطلب نکالا یعنی نسل کی بنیاد پر یہودیوں سے نفرت۔
اب ہولوکاسٹ کے حوالے سےنسل کے بارے میں بات کرنا ناممکن ہوگیا ہے اور سائنس کے بارے میں بات کرنا بھی پہلے کی طرح آسان نہیں رہا کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہمیں احساس ہوچکا ہے کہ سائنس نے ہمیں پوری دنیا کو تباہ کرنے کی صلاحیت دے رکھی ہے۔ لہذا ہولوکاسٹ کے بعد کے سالوں میں ثقافت کے اندر رہتے ہوئے بنیادی اخلاقی اتھارٹی کے حوالے سے جو تصور اُبھرا ، وہ انسانی حقوق کا تصور تھا۔ لہذا سام دشمنی کی اس نئی شکل میں ، جسے اگست 2001 میں ڈربن میں نسل پرستی کے خلاف اقوام متحدہ کی کانفرنس میں متعارف کروایا گیا تھا، اسرائیل پر انسانی حقوق کی پانچ بنیادی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا: نسل پرستی، رنگ بھید، نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کی کوشش۔ اب یہ سام دشمنی کی نئی شکل بن چکی ہے۔ اب ان کی پہچان پہلے کی طرح کسی مذہب یا نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کےنہیں ہے، بلکہ قومی حیثیت میں ایسے یہودیوں کی ہے جو اسرائیلی ریاست کی حمایت کرتے ہیں۔
سام دشمنی کو سمجھنے کی کوشش کرنے والے افراد یہودیوں کا مطالعہ کرتے ہیں لیکن یہودی سام دشمنی کا نشانہ ہیں، اس کا سبب نہیں ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کو جاپان جیسی جگہ میں بھی سام دشمنی ملے گی جہاں یہودیوں کا نام و نشان نہیں ہے۔ لہذا اگر آپ محض یہودیوں کو دیکھ کر سام دشمنی کے بارے میں رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ بہت بڑی گلطی کر رہے ہیں۔سام دشمنی کو سمجھنے کے لئے آپ کو سام دشمنوں کو سمجھنا ہوگا۔